میرے پیارے بلاگ کے پڑھنے والو! امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ آج کل ہر طرف جس تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں، خاص کر کاروبار کی دنیا میں، تو ہم سب کو ہر نئی چیز سے باخبر رہنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کیسے پچھلے کچھ سالوں میں چیزیں پوری طرح بدل گئی ہیں۔ چاہے وہ ہماری روزمرہ کی زندگی ہو یا پھر بڑی بڑی کمپنیاں، ہر کوئی ایک ایسے نظام سے جڑا ہے جسے ہم ‘سپلائی چین’ کہتے ہیں۔ یہ وہ جادوئی جال ہے جو ایک چیز کو اس کے بننے سے لے کر ہمارے ہاتھ تک پہنچنے تک سارے سفر کو ممکن بناتا ہے۔لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت اس سپلائی چین میں کیا کچھ ہو رہا ہے؟ کیسے نئی ٹیکنالوجیز جیسے کہ مصنوعی ذہانت (AI) اور بلاک چین اسے مزید تیز اور بہتر بنا رہی ہیں؟ اور کیسے عالمی واقعات، جیسے کہ حالیہ وبائی صورتحال یا مختلف ممالک کے درمیان کشیدگی، نے اس نظام کو نئے چیلنجز دیے ہیں؟ یہ صرف بڑے کاروبار کی بات نہیں، بلکہ یہ ہم سب کی زندگیوں پر اثر ڈالتا ہے۔ میرے تجربے کے مطابق، جو لوگ ان تبدیلیوں کو سمجھتے ہیں، وہی آگے بڑھتے ہیں۔ میں نے بہت غور سے ان تمام رجحانات کا جائزہ لیا ہے اور محسوس کیا ہے کہ مستقبل اسی میں ہے کہ ہم کس طرح ان چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہیں اور نئے مواقع تلاش کرتے ہیں۔آئیے، آج ہم گلوبل لاجسٹکس اور سپلائی چین مینجمنٹ کے تازہ ترین رجحانات، ان کے اثرات، اور آنے والے وقتوں میں ان کی کیا اہمیت ہوگی، اس پر گہرائی سے روشنی ڈالتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ کیسے کمپنیاں جدید ٹیکنالوجیز اور نئی حکمت عملیوں کے ساتھ اپنے نظام کو مزید مضبوط اور پائیدار بنا رہی ہیں۔ یہ ایسا موضوع ہے جس نے دنیا بھر کے ماہرین کی توجہ حاصل کر رکھی ہے، کیونکہ اس کا تعلق ہماری معیشت اور آپ کے روزمرہ کے سامان کی دستیابی سے ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو یہاں بہت سی نئی اور دلچسپ معلومات ملیں گی جو آپ کے لیے انتہائی کارآمد ثابت ہوں گی۔ تو چلیں، اس پر تفصیل سے بات کرتے ہیں، آپ کو ہر چیز بالکل واضح طور پر معلوم ہو جائے گی!
سپلائی چین میں ڈیجیٹل انقلاب اور ٹیکنالوجی کا جادو

میرے پیارے پڑھنے والو، آج سے کچھ سال پہلے کی بات ہے، جب میں نے خود دیکھا کہ ایک چھوٹے کاروبار کو اپنی مصنوعات ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لیکن اب چیزیں بالکل بدل چکی ہیں۔ آج کل، ٹیکنالوجی نے سپلائی چین کو ایک ایسا جادوئی نظام بنا دیا ہے جہاں ہر قدم پر جدت اور تیزی نظر آتی ہے۔ میرے تجربے کے مطابق، جو کمپنیاں اس ڈیجیٹل تبدیلی کو اپنا رہی ہیں، وہی مارکیٹ میں سب سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ یہ صرف بڑے اداروں کی بات نہیں، بلکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار بھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے ایک چھوٹا اسٹارٹ اپ بھی AI اور بلاک چین جیسی ٹیکنالوجیز کو استعمال کر کے عالمی منڈی میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ یہ صرف سامان کی ترسیل نہیں، بلکہ معلومات اور ڈیٹا کی تیز رفتار گردش ہے جو پورے عمل کو ہموار بناتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میرے ایک دوست نے بتایا تھا کہ ان کے سپلائی چین میں ایک چھوٹا سا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ بھی کیسے پورے نظام کو مزید کارآمد بنا دیتا ہے۔ اس ڈیجیٹل انقلاب کا بنیادی مقصد وقت کی بچت، اخراجات میں کمی اور صارفین تک بروقت اور بہترین سروس فراہم کرنا ہے۔
مصنوعی ذہانت (AI) اور مشین لرننگ کا کمال
ہم سب جانتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت (AI) آج کل ہر جگہ ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ ہماری سپلائی چین کو کیسے بدل رہی ہے؟ میں نے ذاتی طور پر دیکھا ہے کہ کیسے AI کی مدد سے کمپنیاں اپنی مصنوعات کی طلب کا درست اندازہ لگا رہی ہیں، یہاں تک کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی واقعات کے اثرات کو بھی مدنظر رکھ کر پیش گوئیاں کر رہی ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز ہے۔ مشین لرننگ کے الگورتھم بہت تیزی سے بڑے ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ کس چیز کی کب اور کتنی ضرورت ہوگی۔ مثال کے طور پر، میرے ایک جاننے والے کی فیکٹری میں AI اب یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس وقت کون سا خام مال آرڈر کرنا ہے تاکہ پیداوار میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ اس سے نہ صرف وسائل کا بہتر استعمال ہوتا ہے بلکہ اسٹاک کے اضافی بوجھ سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کیسے AI راستوں کی منصوبہ بندی کو بہتر بناتا ہے، جس سے ایندھن کی بچت ہوتی ہے اور ترسیل کا وقت کم ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ٹول ہے جو صرف معلومات فراہم نہیں کرتا، بلکہ خود فیصلہ سازی میں بھی مدد دیتا ہے، جو واقعی ایک گیم چینجر ہے۔
بلاک چین کی شفافیت اور ٹریس ایبلٹی
اگر ہم شفافیت اور اعتماد کی بات کریں تو بلاک چین کا نام سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے۔ ایک ایسی ٹیکنالوجی جو ہر ٹرانزیکشن کا ایک ناقابل تغیر ریکارڈ رکھتی ہے۔ میں نے خود محسوس کیا ہے کہ کیسے یہ سپلائی چین میں دھوکہ دہی اور غلطیوں کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ میرے ایک دوست نے جو پھلوں کی درآمد و برآمد کا کاروبار کرتے ہیں، بتایا کہ بلاک چین نے ان کے لیے یہ جاننا کتنا آسان بنا دیا ہے کہ ان کا پھل کس باغ سے آیا ہے اور کون کون سے مراحل سے گزرا ہے۔ اس سے نہ صرف صارفین کا اعتماد بڑھتا ہے بلکہ سپلائی چین میں شامل تمام فریقین کے درمیان بہتر ہم آہنگی بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہ خاص طور پر ان صنعتوں کے لیے بہت اہم ہے جہاں مصنوعات کی اصلیت اور معیار پر بہت زور دیا جاتا ہے، جیسے کہ فارماسیوٹیکلز یا قیمتی اشیاء۔ بلاک چین کی مدد سے ہم یہ بھی جان سکتے ہیں کہ ہماری پروڈکٹ کسی بھی مرحلے پر کہاں ہے، جس سے بروقت مسائل کی نشاندہی اور حل ممکن ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا مضبوط نظام ہے جو سپلائی چین کو مزید محفوظ اور قابل اعتماد بناتا ہے۔
پائیداری: ایک ضرورت نہیں، اب کاروبار کی بنیاد
دوستو، آج کل پائیداری صرف ایک خوبصورت لفظ نہیں رہ گیا، بلکہ یہ ایک ایسا رجحان ہے جسے ہر کمپنی اپنے کاروبار کا حصہ بنانا چاہتی ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کیسے صارفین بھی اب ان کمپنیوں کی طرف زیادہ راغب ہو رہے ہیں جو ماحول دوست اور سماجی طور پر ذمہ دار ہیں۔ یہ اب صرف ماحول کی بات نہیں رہی، بلکہ یہ کاروباری ساکھ اور طویل مدتی کامیابی کی بھی ضامن ہے۔ مجھے یاد ہے ایک بار میں نے ایک کمپنی کے بارے میں پڑھا تھا جس نے اپنے پورے سپلائی چین کو ماحول دوست بنانے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ انہوں نے نہ صرف اپنے کاربن فوٹ پرنٹ کو کم کیا بلکہ صارفین میں بھی بہت مقبولیت حاصل کی۔ میرے نزدیک یہ ایک سمجھداری کا فیصلہ ہے، کیونکہ آج کی نسل اور آنے والی نسلیں ایک صاف ستھرے اور صحت مند ماحول میں رہنا چاہتی ہیں۔ اس لیے پائیدار سپلائی چین کا قیام صرف ایک کاروباری حکمت عملی نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی ذمہ داری بھی ہے۔ اس سے نہ صرف کمپنی کی تصویر بہتر ہوتی ہے بلکہ اخراجات میں بھی کمی آ سکتی ہے کیونکہ وسائل کا بہتر استعمال ہوتا ہے۔
ماحول دوست لاجسٹکس کی طرف بڑھتے قدم
ماحول دوست لاجسٹکس کا مطلب ہے کہ ہم اپنی ترسیل کے طریقوں کو اس طرح سے بہتر بنائیں کہ وہ ماحول پر کم سے کم منفی اثرات مرتب کریں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سی کمپنیاں اب ایسے پیکیجنگ مواد استعمال کر رہی ہیں جو ری سائیکل ہو سکتے ہیں یا بائیوڈیگریڈیبل ہیں۔ یہ ایک چھوٹی سی تبدیلی لگ سکتی ہے، لیکن اس کا اثر بہت بڑا ہوتا ہے۔ مجھے حال ہی میں ایک ای کامرس کمپنی کے بارے میں معلوم ہوا جس نے اپنے تمام ڈیلیوری ٹرکس کو الیکٹرک گاڑیوں سے بدل دیا ہے۔ سوچیں، اس سے کتنا فرق پڑے گا!
اس کے علاوہ، کمپنیاں اب اپنے راستوں کی منصوبہ بندی اس طرح کرتی ہیں کہ کم سے کم ایندھن استعمال ہو۔ میرے خیال میں یہ صرف ماحول کے لیے اچھا نہیں ہے، بلکہ طویل مدت میں کمپنیوں کے لیے بھی اقتصادی فائدہ مند ہے۔ کم ایندھن کے اخراجات اور پائیدار برانڈ امیج، یہ سب اس کے مثبت اثرات ہیں۔ یہ ٹرینڈ صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں، بلکہ چھوٹے شہروں میں بھی کمپنیاں اپنے آپریشنز کو ماحول دوست بنا رہی ہیں۔
اخلاقی سپلائی چین اور سماجی ذمہ داری
پائیداری صرف ماحول تک محدود نہیں ہے۔ اس میں انسانی حقوق، منصفانہ اجرت اور کام کے اچھے حالات بھی شامل ہیں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ بہت سی کمپنیاں اب اپنی سپلائی چین میں اخلاقی اقدار کو بھی بہت اہمیت دے رہی ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے کچھ برانڈز اب یہ یقینی بناتے ہیں کہ ان کے کارکنوں کو مناسب اجرت ملے اور انہیں محفوظ ماحول میں کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ یہ صرف ایک اچھا عمل نہیں بلکہ یہ صارفین میں ایک مثبت تاثر بھی پیدا کرتا ہے۔ آج کے باشعور صارفین یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کی خریدی ہوئی چیزیں کس طرح بنائی گئی ہیں اور کیا انہیں بنانے میں کسی قسم کی زیادتی تو نہیں ہوئی۔ میرے تجربے کے مطابق، جو کمپنیاں اخلاقی سپلائی چین کو اپنا رہی ہیں، وہ نہ صرف طویل مدت میں اپنے برانڈ کی ساکھ کو مضبوط کرتی ہیں بلکہ زیادہ باصلاحیت ملازمین کو بھی اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔ یہ ایک ایسا ٹرینڈ ہے جو بتا رہا ہے کہ کاروبار صرف منافع کمانے کا نام نہیں، بلکہ معاشرتی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنے کا بھی ہے۔
لچکدار سپلائی چین: ہر چیلنج کا سامنا کرنے کی تیاری
گزشتہ کچھ سالوں میں ہم سب نے دیکھا کہ عالمی واقعات، جیسے وبائی امراض یا قدرتی آفات، ہماری سپلائی چین پر کتنا گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔ میں نے خود محسوس کیا ہے کہ ان حالات میں جو سپلائی چین لچکدار اور مضبوط ہوتے ہیں، وہی کامیابی سے آگے بڑھ پاتے ہیں۔ وہ دن گئے جب کمپنیاں صرف اخراجات کم کرنے پر توجہ دیتی تھیں۔ اب یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ کسی بھی رکاوٹ سے نمٹنے کی صلاحیت سب سے اہم ہے۔ میرے ایک کاروباری دوست نے بتایا کہ پچھلے لاک ڈاؤن میں جن کمپنیوں کے پاس اپنے سپلائی چین میں متبادل ذرائع موجود تھے، وہ دوسروں سے بہتر کارکردگی دکھا پائیں۔ یہ صرف منصوبہ بندی کی بات نہیں، بلکہ یہ سوچنے کا طریقہ ہے کہ ہم ہر غیر متوقع صورتحال کے لیے کیسے تیار رہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سی کمپنیاں اب “سنگل سورسنگ” سے ہٹ کر “ملٹی سورسنگ” کی طرف جا رہی ہیں تاکہ کسی ایک فراہم کنندہ پر انحصار کم ہو سکے۔ یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جو مستقبل کے چیلنجز کے لیے ہماری تیاری کو یقینی بناتی ہے۔
رسک مینجمنٹ اور متبادل حکمت عملی
آج کل کی دنیا میں رسک مینجمنٹ کسی بھی سپلائی چین کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ میرے نزدیک، یہ صرف مسائل کی نشاندہی کرنا نہیں، بلکہ ان سے نمٹنے کے لیے پہلے سے حکمت عملی تیار کرنا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کمپنیاں اب مختلف قسم کے رسک ماڈلز پر کام کر رہی ہیں، تاکہ وہ قدرتی آفات، سیاسی عدم استحکام یا سائبر حملوں جیسے خطرات کو بروقت سمجھ سکیں اور ان سے بچاؤ کے اقدامات کر سکیں۔ مثال کے طور پر، میرے ایک کزن جو ایک بڑی مینوفیکچرنگ کمپنی میں کام کرتے ہیں، بتایا کہ ان کی کمپنی نے حال ہی میں اپنے خام مال کے سپلائرز کو مختلف ممالک میں پھیلا دیا ہے تاکہ اگر کسی ایک ملک میں کوئی مسئلہ ہو تو پیداوار متاثر نہ ہو۔ یہ متبادل سپلائی چین بنانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ اس کے علاوہ، وہ اپنے اسٹاک کی سطح کو بھی اس طرح سے منظم کرتے ہیں کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں ان کے پاس کافی اسٹاک موجود ہو۔ یہ سب رسک کو کم کرنے اور سپلائی چین کو مزید مضبوط بنانے کے طریقے ہیں۔
لوکلائزیشن اور ریجنل سپلائی نیٹ ورکس
عالمی واقعات نے ہمیں یہ بھی سکھایا ہے کہ بعض اوقات مقامی سپلائی چین کتنے اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ “لوکلائزیشن” کا مطلب ہے کہ مصنوعات کو اپنے صارفین کے قریب ہی تیار کیا جائے یا ان کے خام مال کو مقامی طور پر حاصل کیا جائے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سی کمپنیاں اب اپنے عالمی سپلائی چین کو چھوٹے علاقائی نیٹ ورکس میں تقسیم کر رہی ہیں۔ یہ نہ صرف ترسیل کے وقت کو کم کرتا ہے بلکہ ماحولیاتی اثرات کو بھی کم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، میرے ایک دوست کی بیکری اب اپنے تمام اجزاء مقامی کسانوں سے خریدتی ہے۔ اس سے نہ صرف انہیں تازہ مال ملتا ہے بلکہ مقامی معیشت کو بھی فروغ ملتا ہے۔ یہ ایک “ون-ون” صورتحال ہے۔ اس سے نہ صرف عالمی جھٹکوں کا اثر کم ہوتا ہے بلکہ یہ کمپنیوں کو اپنے صارفین کی ضروریات کو زیادہ تیزی سے پورا کرنے کے قابل بناتا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ علاقائی سپلائی نیٹ ورکس مستقبل کی سپلائی چین کا ایک اہم حصہ ہوں گے، جو کمپنیوں کو زیادہ چست اور جواب دہ بنائیں گے۔
آخری میل کی ترسیل: صارفین کی دہلیز تک جدت
میرے عزیز پڑھنے والو، آج کل ہم سب کو سب کچھ بہت جلدی چاہیے، ہے نا؟ میں نے خود محسوس کیا ہے کہ آخری میل کی ترسیل یعنی کسی بھی چیز کو گودام سے لے کر ہمارے گھر کی دہلیز تک پہنچانا، اب سپلائی چین کا سب سے اہم اور سب سے مشکل حصہ بن چکا ہے۔ ای کامرس کے بڑھنے سے اس شعبے میں بے پناہ جدت آ رہی ہے۔ مجھے یاد ہے ایک بار میں نے ایک آن لائن آرڈر کیا تھا اور وہ اتنی جلدی پہنچ گیا کہ میں خود حیران رہ گئی۔ یہ سب اس لیے ممکن ہو رہا ہے کیونکہ کمپنیاں نئے نئے طریقے استعمال کر رہی ہیں۔ صارفین اب صرف بروقت ترسیل نہیں چاہتے، بلکہ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ انہیں اپنی سہولت کے مطابق ترسیل کا وقت اور جگہ ملے۔ میرے تجربے کے مطابق، جو کمپنیاں آخری میل کی ترسیل میں بہترین کارکردگی دکھا رہی ہیں، وہی صارفین کی وفاداری حاصل کر رہی ہیں۔ یہ صرف ایک ٹرینڈ نہیں، بلکہ ای کامرس کی کامیابی کا راز ہے۔
ڈرون اور خودمختار گاڑیوں کا بڑھتا استعمال
سچ کہوں تو، جب میں نے پہلی بار ڈرون کے ذریعے ڈیلیوری کے بارے میں سنا تو مجھے یقین نہیں آیا۔ لیکن اب یہ حقیقت بنتا جا رہا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے دور دراز علاقوں میں یا ہنگامی صورتحال میں ڈرون ترسیل کے لیے ایک بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، خودمختار گاڑیاں، یعنی خود چلنے والی گاڑیاں، بھی آخری میل کی ترسیل کو انقلاب کر رہی ہیں۔ میرے خیال میں یہ ٹیکنالوجیز نہ صرف ترسیل کی رفتار کو بڑھائیں گی بلکہ اخراجات میں بھی کمی لائیں گی۔ تصور کریں، ایک دن آپ کی من پسند چیز ایک چھوٹے سے روبوٹ کے ذریعے آپ کے دروازے پر پہنچ جائے!
یہ اب کوئی سائنس فکشن نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ کمپنیاں اب ان ٹیکنالوجیز میں بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہیں تاکہ صارفین کو تیز ترین اور سب سے موثر ترسیل فراہم کی جا سکے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں ابھی بہت کچھ نیا ہونے والا ہے اور میں خود اس کو دیکھنے کے لیے بہت پرجوش ہوں۔
شہری لاجسٹکس اور مائیکرو فل فلمنٹ سنٹرز
شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی اور ٹریفک کے مسائل کی وجہ سے شہری لاجسٹکس ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ اسی لیے کمپنیاں اب “مائیکرو فل فلمنٹ سنٹرز” قائم کر رہی ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے گودام ہوتے ہیں جو شہر کے اندر یا شہر کے قریب واقع ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ ان مراکز کی مدد سے کمپنیاں آرڈرز کو بہت تیزی سے پروسیس کر سکتی ہیں اور آخری میل کی ترسیل کو بہت کم وقت میں مکمل کر سکتی ہیں۔ میرے ایک دوست جو ایک ای کامرس کمپنی کے لیے کام کرتے ہیں، بتایا کہ ان مراکز کی وجہ سے انہیں صارفین تک چند گھنٹوں میں مصنوعات پہنچانے میں مدد ملی ہے۔ یہ روایتی بڑے گوداموں کے مقابلے میں بہت زیادہ موثر ہیں۔ اس سے نہ صرف ترسیل کا وقت کم ہوتا ہے بلکہ ٹریفک بھی کم ہوتی ہے اور ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی آتی ہے۔ یہ شہری زندگی کو آسان بنانے اور صارفین کی ضروریات کو بہتر طریقے سے پورا کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔
ڈیٹا اینالیٹکس اور پیشین گوئی: مستقبل کی پرکھ
سپلائی چین میں ڈیٹا کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے ڈیٹا کو سمجھنا اور اس کا صحیح استعمال کرنا کمپنیوں کو بے پناہ فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ آج کل، “ڈیٹا اینالیٹکس” صرف ایک تکنیکی اصطلاح نہیں بلکہ یہ کاروباری ذہانت کی بنیاد بن چکی ہے۔ میرے تجربے کے مطابق، جو کمپنیاں اپنے ڈیٹا کا گہرائی سے تجزیہ کرتی ہیں، وہ نہ صرف موجودہ مسائل کو حل کرتی ہیں بلکہ مستقبل کے چیلنجز کے لیے بھی بہتر طور پر تیار رہتی ہیں۔ یہ ہمیں صرف یہ نہیں بتاتا کہ کیا ہوا، بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ میں نے بہت سے چھوٹے کاروباروں کو بھی دیکھا ہے جو سستے اور موثر ڈیٹا اینالیٹکس ٹولز کا استعمال کر کے اپنی کارکردگی میں بہتری لا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا ٹول ہے جو اندھیرے میں تیر چلانے کی بجائے، روشنی میں راستہ دکھاتا ہے۔
بڑے ڈیٹا سے بصیرت حاصل کرنا
آج کل کی دنیا میں ہر جگہ سے ڈیٹا جمع ہو رہا ہے: صارفین کی خریداری کی عادات سے لے کر موسم کی پیش گوئیوں تک۔ یہ سارا “بڑا ڈیٹا” ہے جسے اگر صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ سپلائی چین کے لیے سونے کی کان ثابت ہو سکتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کیسے کمپنیاں اس ڈیٹا کو استعمال کر کے اپنی انوینٹری کو بہتر بناتی ہیں، طلب کی درست پیش گوئی کرتی ہیں اور یہاں تک کہ ممکنہ سپلائی چین رکاوٹوں کی بھی پیش گوئی کر لیتی ہیں۔ میرے ایک یونیورسٹی کے دوست جو اب ایک لاجسٹکس کمپنی میں کام کرتے ہیں، بتایا کہ ان کی کمپنی نے حال ہی میں ایک نیا سسٹم انسٹال کیا ہے جو لاکھوں ٹرانزیکشنز کا تجزیہ کر کے انہیں بتاتا ہے کہ کون سی مصنوعات کب زیادہ بکنے والی ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز ہے۔ اس سے انہیں اپنے گوداموں کو منظم کرنے اور ترسیل کو زیادہ موثر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ بڑا ڈیٹا ہمیں ان پیٹرنز کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے جو انسانی آنکھ سے نظر نہیں آتے۔
حقیقی وقت کی نگرانی اور بہتر فیصلہ سازی

آپ نے سنا ہوگا “وقت ہی پیسہ ہے”۔ اور سپلائی چین میں یہ بات بالکل سچ ہے۔ آج کل، کمپنیوں کو “حقیقی وقت” میں اپنے سپلائی چین کی نگرانی کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ IoT (انٹرنیٹ آف تھنگز) جیسے سینسرز اور GPS ٹریکرز کی مدد سے کمپنیاں اپنے سامان کی نقل و حرکت کو ہر لمحہ مانیٹر کر سکتی ہیں۔ اس سے انہیں کسی بھی مسئلے کی بروقت نشاندہی کرنے اور فوری طور پر حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی ٹرک راستے میں پھنس جائے یا اس میں کوئی خرابی آ جائے، تو کمپنی کو فوراً معلوم ہو جاتا ہے اور وہ متبادل انتظامات کر سکتی ہے۔ میرے ایک بزنس پارٹنر نے بتایا کہ حقیقی وقت کی نگرانی کی وجہ سے ان کی کمپنی نے گزشتہ سال لاکھوں روپے کا نقصان ہونے سے بچا لیا۔ اس سے نہ صرف کارکردگی میں بہتری آتی ہے بلکہ صارفین کا اعتماد بھی بڑھتا ہے کیونکہ انہیں اپنی مصنوعات کی حالت کے بارے میں درست معلومات ملتی ہیں۔ یہ سب بہتر اور تیز فیصلہ سازی میں مدد دیتا ہے۔
انسانیت اور آٹومیشن کا امتزاج: ورک فورس کی نئی شکل
دوستو، ہم سب جانتے ہیں کہ ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کر رہی ہے، اور اس کا اثر ہمارے کام کرنے کے طریقوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے گوداموں میں اب روبوٹ انسانی کارکنوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ یہ ایک نیا رجحان ہے جہاں آٹومیشن انسانی محنت کی جگہ نہیں لے رہی بلکہ اس کی تکمیل کر رہی ہے۔ میرے نزدیک یہ مستقبل کی ورک فورس ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے ایک بڑے ای کامرس گودام کا دورہ کیا تھا جہاں روبوٹ بھاری سامان اٹھانے اور چھانٹنے کا کام کر رہے تھے، جبکہ انسان ان روبوٹس کی نگرانی اور مزید پیچیدہ کاموں میں مصروف تھے۔ یہ ایک بہترین امتزاج ہے جو کام کی رفتار اور درستگی دونوں کو بڑھاتا ہے۔ یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جس کے لیے ہمیں اپنی ورک فورس کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
روبوٹکس اور خودکار گوداموں کا کردار
آج کل “خودکار گودام” کوئی نئی بات نہیں رہی۔ میں نے دیکھا ہے کہ روبوٹس اور خودکار نظام گوداموں میں سامان کی نقل و حرکت، چھانٹی، اور پیکنگ جیسے کاموں کو سنبھال رہے ہیں۔ یہ روبوٹس نہ صرف انسانوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے کام کرتے ہیں بلکہ غلطیوں کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔ میرے ایک انڈسٹری کے ماہر دوست نے بتایا کہ روبوٹکس کا استعمال ان کمپنیوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوا ہے جہاں بڑی تعداد میں مصنوعات کو تیزی سے ہینڈل کرنا ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف لیبر کے اخراجات میں کمی آتی ہے بلکہ کام کی حفاظت بھی بڑھتی ہے کیونکہ خطرناک کام روبوٹ سنبھالتے ہیں۔ یہ سب سپلائی چین کو زیادہ موثر اور اقتصادی بناتا ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کیسے ایک بڑا گودام چند روبوٹس کی مدد سے ہزاروں آرڈرز روزانہ پورا کر رہا ہے۔
ہنر مند کارکنوں کی اہمیت اور تربیت
اگرچہ روبوٹس اور آٹومیشن کا استعمال بڑھ رہا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسانی کارکنوں کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ بلکہ، ان کا کردار تبدیل ہو گیا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ اب کمپنیوں کو ایسے کارکنوں کی ضرورت ہے جو ان جدید ٹیکنالوجیز کو سمجھ سکیں، انہیں چلا سکیں اور ان کی دیکھ بھال کر سکیں۔ میرے خیال میں، اس لیے “ہنر مند کارکنوں” کی تربیت بہت ضروری ہو گئی ہے۔ کمپنیوں کو اپنے ملازمین کو نئی ٹیکنالوجیز جیسے AI، روبوٹکس، اور ڈیٹا اینالیٹکس کے بارے میں تعلیم دینے کے لیے سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ میرے ایک دوست جو ایک ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ چلاتے ہیں، بتایا کہ ان کے ہاں ایسے کورسز کی مانگ بہت بڑھ گئی ہے جو ان نئے ہنر سکھاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی سرمایہ کاری ہے جو نہ صرف کارکنوں کو بااختیار بناتی ہے بلکہ کمپنی کی مجموعی کارکردگی کو بھی بہتر بناتی ہے۔ مستقبل میں کامیابی کے لیے انسانی مہارت اور ٹیکنالوجی کا امتزاج بہت اہم ہوگا۔
| ٹیکنالوجی کا نام | اہم کردار | کاروبار پر اثر |
|---|---|---|
| مصنوعی ذہانت (AI) | طلب کی پیشین گوئی، راستوں کی اصلاح، خودکار فیصلہ سازی | کارکردگی میں اضافہ، اخراجات میں کمی، بہتر کسٹمر سروس |
| بلاک چین | ٹرانسپیرنسی، ٹریس ایبلٹی، فراڈ کی روک تھام | سپلائی چین میں اعتماد کا فروغ، قانونی تعمیل |
| انٹرنیٹ آف تھنگز (IoT) | حقیقی وقت میں اثاثوں کی نگرانی، انوینٹری مینجمنٹ | آپریشنل استعداد، نقصان میں کمی، بہتر فیصلہ سازی |
| روبوٹکس اور آٹومیشن | گوداموں میں سامان کی ہینڈلنگ، پیکیجنگ، چھانٹی | تیزی، درستگی، مزدوری کے اخراجات میں کمی |
صارفین کی بدلتی ہوئی توقعات اور ان کا سپلائی چین پر اثر
میرے پیارے پڑھنے والو، ایک بات تو طے ہے کہ آج کل کے صارفین بہت باشعور ہو گئے ہیں۔ وہ صرف اچھی مصنوعات ہی نہیں چاہتے بلکہ انہیں یہ بھی چاہیے کہ وہ مصنوعات بروقت اور اپنی مرضی کے مطابق ان تک پہنچیں۔ میں نے خود محسوس کیا ہے کہ کیسے ای کامرس نے ہماری توقعات کو بہت اونچا کر دیا ہے۔ آج سے کچھ سال پہلے، اگر کوئی چیز ایک ہفتے میں مل جاتی تو ہم خوش ہوتے تھے، لیکن اب ہمیں اگلے دن بلکہ بعض اوقات چند گھنٹوں میں ہی اپنی چیز چاہیے۔ یہ صارفین کی بدلتی ہوئی توقعات ہیں جو سپلائی چین کو ہر لمحہ مزید بہتر بنانے پر مجبور کر رہی ہیں۔ میرے ایک دوست کی آن لائن دکان ہے اور وہ بتاتے ہیں کہ اگر ڈیلیوری میں تھوڑی سی بھی دیر ہو جائے تو صارفین فوراً شکایت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ دباؤ کمپنیوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے لاجسٹکس اور ترسیل کے نظام کو زیادہ تیز، موثر اور لچکدار بنائیں۔ میرے نزدیک، جو کمپنی اپنے صارفین کی توقعات کو پورا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے، وہی مارکیٹ میں راج کرتی ہے۔ یہ صرف ایک پروڈکٹ کی بات نہیں، بلکہ ایک مکمل تجربے کی بات ہے۔
فوری ترسیل اور حسب ضرورت خدمات کی بڑھتی مانگ
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہم سب کو اتنی جلدی کیوں چاہیے؟ یہ صرف ہماری فطرت نہیں، بلکہ یہ جدید ٹیکنالوجی کا کمال ہے جس نے ہماری توقعات کو بہت بڑھا دیا ہے۔ “فوری ترسیل” اب لگژری نہیں بلکہ ایک ضرورت بن چکی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سی کمپنیاں اب 24 گھنٹے یا اس سے بھی کم وقت میں ترسیل کی خدمات پیش کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ، صارفین اب “حسب ضرورت خدمات” بھی چاہتے ہیں، یعنی وہ چاہتے ہیں کہ انہیں اپنی مرضی کے وقت اور مقام پر ڈیلیوری ملے۔ میرے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ وہ ہمیشہ ایسی آن لائن شاپنگ ویب سائٹ کو ترجیح دیتے ہیں جو انہیں ڈیلیوری کا ٹائم سلاٹ خود منتخب کرنے کا آپشن دیتی ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی تفصیل ہے لیکن اس کا صارفین پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہ ساری مانگ سپلائی چین پر بہت دباؤ ڈالتی ہے کہ وہ زیادہ چست اور صارفین پر مبنی ہو۔
سوشل میڈیا اور صارفین کی رائے کا اثر
آج کل کی دنیا میں، سوشل میڈیا ایک طاقتور ذریعہ ہے جہاں صارفین اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے ایک خراب ڈیلیوری کا تجربہ چند منٹوں میں سوشل میڈیا پر وائرل ہو کر کمپنی کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اسی طرح، ایک بہترین ڈیلیوری کا تجربہ بھی کمپنی کے لیے بہت مثبت ثابت ہو سکتا ہے۔ میرے نزدیک، کمپنیاں اب یہ سمجھ چکی ہیں کہ صارفین کی رائے کتنی اہم ہے۔ اس لیے وہ اپنی سپلائی چین کو اس طرح سے منظم کر رہی ہیں کہ ہر کسٹمر کو بہترین تجربہ ملے۔ یہ صرف شکایتوں کو سننا نہیں، بلکہ فعال طور پر صارفین کے فیڈ بیک کا تجزیہ کرنا اور اپنے نظام کو مسلسل بہتر بنانا ہے۔ میرے ایک دوست جو ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں ہیں، بتایا کہ وہ کمپنیوں کو ہمیشہ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی سپلائی چین کو اس طرح سے بہتر بنائیں کہ صارفین سوشل میڈیا پر مثبت تبصرے کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ یہ ایک ایسا عنصر ہے جسے اب کوئی کمپنی نظر انداز نہیں کر سکتی۔
عالمی واقعات کا بڑھتا اثر اور سپلائی چین کی نئی حکمت عملی
میرے پیارے پڑھنے والو، پچھلے چند سالوں میں ہم نے دیکھا کہ دنیا کتنی تیزی سے بدل سکتی ہے۔ چاہے وہ کوئی وبائی صورتحال ہو، سیاسی کشیدگی ہو یا قدرتی آفات، ان سب کا ہماری عالمی سپلائی چین پر بہت گہرا اثر پڑا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک بار ایک عالمی بحری راستے میں رکاوٹ کی وجہ سے پوری دنیا میں سپلائی چین متاثر ہو گئی تھی اور بہت سی مصنوعات کی قیمتیں بڑھ گئی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ہمیں یہ احساس ہوا کہ ہمارے سپلائی چین کتنے نازک ہو سکتے ہیں۔ میرے نزدیک، اب کمپنیاں صرف منافع پر ہی نہیں بلکہ اپنے سپلائی چین کی “مضبوطی” پر بھی توجہ دے رہی ہیں۔ یہ صرف ایک وقتی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک مستقل حقیقت بن چکا ہے کہ عالمی واقعات کسی بھی وقت ہمارے کاروبار کو متاثر کر سکتے ہیں۔
جیو پولیٹیکل کشیدگی اور تجارتی جنگیں
ہم سب جانتے ہیں کہ مختلف ممالک کے درمیان سیاسی اور تجارتی تعلقات بدلتے رہتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ جیو پولیٹیکل کشیدگی، جیسے تجارتی جنگیں یا پابندیاں، سپلائی چین پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ میرے ایک دوست کی ٹیکسٹائل کی فیکٹری ہے اور وہ بتاتے ہیں کہ کیسے ان کے لیے یہ بہت مشکل ہو جاتا ہے جب مختلف ممالک کے درمیان تجارتی پالیسیاں بدلتی ہیں۔ یہ کمپنیوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے سپلائرز اور مارکیٹوں کو متنوع بنائیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اب ایک ہی ملک پر انحصار کرنے کی بجائے، کمپنیاں مختلف ممالک سے خام مال حاصل کرتی ہیں اور اپنی مصنوعات کو مختلف مارکیٹوں میں فروخت کرتی ہیں۔ یہ ایک “ڈی رسکنگ” کی حکمت عملی ہے جس کا مقصد کسی بھی ایک سیاسی یا تجارتی جھٹکے کے اثرات کو کم کرنا ہے۔
قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلیوں کا چیلنج
قدرتی آفات، جیسے سیلاب، زلزلے یا طوفان، ہمیشہ سے سپلائی چین کے لیے ایک چیلنج رہے ہیں۔ لیکن اب “موسمیاتی تبدیلیوں” کی وجہ سے ان کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سی کمپنیاں اب موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے سپلائی چین کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، کچھ کمپنیاں اپنے گوداموں کو ایسے علاقوں میں منتقل کر رہی ہیں جہاں سیلاب یا زلزلے کا خطرہ کم ہو۔ میرے ایک کزن جو ایک زرعی کاروبار سے وابستہ ہیں، بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے انہیں اپنی فصلوں کی کٹائی اور ترسیل کے نظام میں بہت سی تبدیلیاں لانا پڑی ہیں۔ یہ صرف ایک ہنگامی صورتحال نہیں، بلکہ یہ ایک طویل مدتی چیلنج ہے جس کے لیے سپلائی چین کو مسلسل بہتر بنانا ہوگا۔
بات کو سمیٹتے ہوئے
میرے عزیز دوستو، جیسا کہ ہم نے دیکھا، آج کی دنیا میں سپلائی چین محض سامان کی ترسیل کا نام نہیں رہا، بلکہ یہ جدت، پائیداری اور لچک کا ایک پیچیدہ نظام بن چکا ہے۔ ٹیکنالوجی نے اسے ایک نیا روپ دیا ہے، اور یہ تبدیلی ابھی جاری ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جو کاروبار ان بدلتے رجحانات کو سمجھ کر انہیں اپنا رہے ہیں، وہی ترقی کی نئی راہیں کھول رہے ہیں۔ یہ سفر آسان نہیں، لیکن اس میں کامیابی کی ضمانت ہے، بشرطیکہ ہم مستقل سیکھتے رہیں اور تبدیلی کو گلے لگائیں۔
جاننے کے لیے مفید معلومات
1. اپنے سپلائی چین میں مصنوعی ذہانت (AI) اور بلاک چین جیسی ٹیکنالوجیز کو شامل کرنے سے نہ صرف آپ کی کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ شفافیت بھی بڑھے گی، جس کا تجربہ میں نے خود کیا ہے۔
2. پائیداری کو اپنے کاروبار کا لازمی حصہ بنائیں۔ ماحول دوست طریقے اپنانا اور اخلاقی سپلائی چین کو یقینی بنانا آج کے باشعور صارفین کی ضرورت بن چکا ہے، جو کہ برانڈ کی ساکھ کے لیے بہت اہم ہے۔
3. ایک لچکدار سپلائی چین کی تعمیر کریں جس میں رسک مینجمنٹ اور متبادل ذرائع کی منصوبہ بندی شامل ہو، تاکہ کسی بھی غیر متوقع صورتحال کا سامنا کیا جا سکے۔
4. آخری میل کی ترسیل پر خاص توجہ دیں اور صارفین کی بڑھتی ہوئی توقعات کو پورا کرنے کے لیے جدید حل جیسے ڈرون یا مائیکرو فل فلمنٹ سنٹرز کا استعمال کریں۔
5. ڈیٹا اینالیٹکس کو اپنا کر اپنی سپلائی چین کی ہر پہلو کو سمجھیں اور حقیقی وقت کی نگرانی کے ذریعے بہتر اور بروقت فیصلے کریں۔
اہم نکات کا خلاصہ
آج کی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں، سپلائی چین صرف لاجسٹکس کا ایک شعبہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک ایسا جاندار نظام بن چکا ہے جو ہر دن نئی جدتوں سے ہمکنار ہو رہا ہے۔ ہم نے اس بلاگ پوسٹ میں مصنوعی ذہانت اور بلاک چین جیسے ٹیکنالوجیز کے جادو کو دیکھا ہے، جنہوں نے کس طرح سپلائی چین کو زیادہ تیز، شفاف اور موثر بنا دیا ہے۔ پائیداری کی بڑھتی ہوئی اہمیت، جو اب محض ایک انتخاب نہیں بلکہ ایک کاروباری ضرورت بن چکی ہے، کمپنیوں کو ماحول دوست اور اخلاقی طریقوں کو اپنانے پر مجبور کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، لچکدار سپلائی چین کی تعمیر جو عالمی واقعات اور غیر متوقع چیلنجز کا سامنا کر سکے، انتہائی ضروری ہو گئی ہے۔ آخری میل کی ترسیل میں ہونے والی تبدیلیاں اور صارفین کی بڑھتی ہوئی توقعات، کمپنیوں کو مجبور کر رہی ہیں کہ وہ جدید حل جیسے ڈرون اور خودمختار گاڑیوں کو اپنائیں۔ آخر میں، ڈیٹا اینالیٹکس اور انسانیت و آٹومیشن کا امتزاج مستقبل کی ورک فورس کو تشکیل دے رہا ہے، جہاں ٹیکنالوجی انسانی مہارت کو مکمل کرتی ہے۔ ان تمام عناصر کو ایک ساتھ لے کر چلنا ہی آج کے کاروبار کی کامیابی کی کنجی ہے۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: گلوبل لاجسٹکس اور سپلائی چین مینجمنٹ میں آج کل سب سے اہم نئے رجحانات کیا ہیں؟
ج: میرے پیارے دوستو، اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ آج کل گلوبل لاجسٹکس اور سپلائی چین میں کیا دھوم مچی ہوئی ہے، تو میں کہوں گا کہ کئی بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں! سب سے پہلے تو ‘ڈیجیٹلائزیشن’ اور ‘ڈیٹا اینالیٹکس’ کا دور ہے۔ کمپنیاں اب IoT (انٹرنیٹ آف تھنگز) اور مصنوعی ذہانت (AI) جیسی جدید ٹیکنالوجیز کو اپنا رہی ہیں تاکہ اپنے آپریشنز کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنا سکیں۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ اس سے شپمنٹ کی رئیل ٹائم ٹریکنگ، ڈیمانڈ کی پیش گوئی، اور راستوں کی بہتر منصوبہ بندی ممکن ہو گئی ہے۔ پھر ‘سپوئی چین کی چستی’ (Supply Chain Agility) ایک بہت اہم چیز بن گئی ہے۔ یعنی سپلائی چین کا اتنا لچکدار ہونا کہ وہ کسی بھی غیر متوقع صورتحال میں تیزی سے ڈھل سکے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے COVID-19 جیسی وبا کے بعد کمپنیوں کو اپنے روایتی طریقوں کو چھوڑ کر نئی حکمت عملیوں کی طرف جانا پڑا۔ ‘پائیداری’ (Sustainability) بھی ایک بہت بڑا رجحان ہے، جہاں کمپنیاں ماحول دوست طریقوں کو اپنا رہی ہیں تاکہ کاربن کے اخراج کو کم کیا جا سکے۔ آخر میں، ‘کسٹمر سینٹرک سپلائی چینز’ (Customer-Centric Supply Chains) کا تصور بھی زور پکڑ رہا ہے، یعنی صارفین کی ضروریات کو سب سے اوپر رکھنا اور ان کی توقعات پر پورا اترنا۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے تاکہ چیزیں زیادہ تیزی سے، بہتر طریقے سے اور کم لاگت میں ہم تک پہنچ سکیں۔
س: عالمی واقعات جیسے وبائی امراض یا جنگیں ہماری روزمرہ کی سپلائی پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں اور کمپنیاں ان سے کیسے نمٹتی ہیں؟
ج: یہ سوال تو آج کل ہر کسی کے ذہن میں ہے، اور میں یہ بات بالکل اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ عالمی واقعات جیسے وبائی امراض (مثلاً COVID-19) یا مختلف علاقوں میں جنگی صورتحال، ہماری سپلائی چین پر بہت گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ ایک تو یہ ہوتا ہے کہ نقل و حمل کے راستے متاثر ہو جاتے ہیں، جیسے کسی علاقے میں جنگ کی وجہ سے بحری جہازوں یا زمینی راستوں کا استعمال مشکل ہو جاتا ہے۔ اس سے سامان کی ترسیل میں تاخیر ہوتی ہے اور لاگت بھی بڑھ جاتی ہے۔ پھر ‘خام مال’ (Raw Materials) کی دستیابی میں بھی مسئلہ آ جاتا ہے، اگر کسی اہم سپلائر ملک میں کوئی بحران ہو تو پیداوار رک سکتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ وبائی صورتحال میں کیسے اچانک ماسک اور سینیٹائزر جیسی چیزوں کی شدید قلت ہو گئی تھی کیونکہ سپلائی چین اس کے لیے تیار نہیں تھی۔ کمپنیاں اب ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بہت محنت کر رہی ہیں۔ وہ ‘سپوئی چین کو زیادہ لچکدار’ بنانے پر زور دے رہی ہیں اور ‘سپلائرز کو متنوع’ بنا رہی ہیں تاکہ کسی ایک پر انحصار کم ہو، یعنی مختلف جگہوں سے سامان حاصل کیا جائے۔ ‘ڈیجیٹل حل’ اور ‘ریئل ٹائم ڈیٹا’ کے استعمال سے کمپنیاں خطرات کا پہلے سے اندازہ لگا سکتی ہیں اور فوری فیصلے کر سکتی ہیں۔ مختصراً، وہ ایسے ‘ہنگامی منصوبے’ (Contingency Plans) بنا رہی ہیں جو انہیں کسی بھی جھٹکے سے بچا سکیں۔
س: مصنوعی ذہانت (AI) اور بلاک چین جیسی نئی ٹیکنالوجیز سپلائی چین کو کیسے بہتر بنا رہی ہیں اور ان کے کیا فوائد ہیں؟
ج: یہ وہ جگہ ہے جہاں میرا دل کہتا ہے کہ مستقبل کے دروازے کھل رہے ہیں۔ AI اور بلاک چین نے سپلائی چین کو واقعی میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ ‘مصنوعی ذہانت’ (AI) کے ذریعے، کمپنیاں اب بہت بڑے ڈیٹا سیٹس کا تجزیہ کر سکتی ہیں۔ اس سے انہیں ‘ڈیمانڈ کی درست پیش گوئی’ کرنے میں مدد ملتی ہے، یعنی یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ کب کس چیز کی کتنی ضرورت ہوگی، جس سے ‘انوینٹری مینجمنٹ’ (Inventory Management) بہت بہتر ہو جاتی ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ AI کیسے گوداموں کو منظم کرنے اور ترسیل کے راستوں کو زیادہ مؤثر بنانے میں مدد کرتا ہے۔ دوسری طرف، ‘بلاک چین’ (Blockchain) ایک ایسا شفاف اور محفوظ نظام ہے جو سپلائی چین کے ہر قدم کا ناقابلِ تغیر ریکارڈ رکھتا ہے۔ اس سے ‘مصنوعات کی ٹریکنگ’ (Traceability) حیرت انگیز حد تک بہتر ہو گئی ہے۔ اب ہم آسانی سے جان سکتے ہیں کہ کوئی چیز کہاں سے چلی اور کن مراحل سے گزر کر ہم تک پہنچی۔ اس سے ‘جعلی مصنوعات’ اور ‘دھوکہ دہی’ کو روکنے میں بھی بہت مدد ملتی ہے۔ میرے تجربے کے مطابق، ان ٹیکنالوجیز کا امتزاج کمپنیوں کو نہ صرف ‘لاگت میں کمی’ بلکہ ‘شفافیت’ اور ‘اعتماد’ بڑھانے میں بھی بے مثال فوائد دے رہا ہے۔ یہ واقعی ایک گیم چینجر ثابت ہو رہی ہیں۔






